رمضان کاتیسرا
عشرہ نجات کا (دوزخ سے)
اس کے
ساتھ :
لَآاِلٰہَ
اِلَّااللہُ(افضل الذکر) اور اَلحَمْدُلِلہَ(افضل
الدُعا)
اول تو
رمضان المبارک کا مہینہ رحمت وبرکت ،مغفرت
اور نجات کا ہے ۔رمضان کا بابرکت مہینہ ہی
ہمارے جیسے گنہگار بندو ں کی بخشش کا باعث بنے گا
انشاءاللہ کیونکہ رمضان میں ایک نیکی کا ثواب دس گنا بڑھ جاتا اور پھر رمضان کا آخری عشرہ جس میں لیلتہ القدر
کی رات ،اعتقاف اور رَمضان کی آخری شب میں عبادت کے ثواب کا اندازہ بھی ہم نہیں
لگا سکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ
دیا ہے پر ہم بدقسمت لوگ ا س کا فائدہ اٹھانا نہیں جانتے ۔
حضرت
ابُوسَعِیْد خُدْری (رضی اللہ عنہٗ) سے روایت ہے کہ رسولَ اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص
اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے،
اللہ اسکے چہرہ کو ستّر سال کی مسافت تک آگ سے دور کراٰ دیتا ہے۔
تو اب آپ
خُد سوچیئے کہ ایک روزہ رکھنے پر اللہ ہمیں ستّر سال دوزخ کی آگ سے دور کر دینگے
انشاءاللہ تو اگر ماہِ رمضان کے پورے روزےاِخلاص
کے ساتھ رکھتے ہیں توانشاءاللہ ہم سب کی بخشش ہوگی۔
لیلتہ القدر:
لیلتہ القدر رمضان المبارک کے آخری (عشرے )دس
دنوں کی طاق راتو ں میں آتا ہے جوبہت ہی
رحمتوں اور برکتوں والی رات ہے۔لیلتہ القدر کی رات ایک ہزار مہینوں سےبہتر ہے۔ یعنی لیلتہ القدر کی رات کی عبادت ہزار
مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتا ب قرآن مجید بھی اسی رات نازل
ہوا ہے-
لیلتہ القدر کی عظمت اور منزلت کا پتہ سورۃ
القدر سے چلتا ہے۔
ترجمہ: بیشک
ہم نے اس (قرآن )کو شبِ قدر میں اُتارا ہے۔اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ)شبِ قدر کیا
ہے؟۔شبِ قدر(فضیلت و برکت اورآجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس(رات )میں
فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے ) ہر امر کے
ساتھ اُترتے ہیں۔ یہ (رات ) طلوعِ فجر تک(سراسر)سلامتی ہے۔
سورۃ کے آخری
آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شبِ قدر(لیلتہ القدر)صبح تک خیر و برکت کی رات ہے
ناکہ رات کے ایک خاص حصے میں خیر وبرکت ہو۔
اُمُّ
الْمُؤمِنِین حضرت عائِشہ صِدّیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہے،میں نے اپنے سرتاج، صاحِب ِ مِعراج حضرت محمدﷺسے
عرض کیا، یا رسولَ اللہ ﷺاگر مجھے شبِ قدْر کا علم ہو جائے تو کیا پڑھوں؟
حضرت
محمدﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح دُعا مانگو:-
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ
الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنّٰا یَاغَفُوْرُ
ترجمہ: اے
اللہ تو بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو ہمیں معاف
فرما دے اے مغفرت کرنے والے۔
O Allah! Verily You are most forgiving. You
love to forgive, therefore forgive us
علماء نے لکھا ہے کہ ایک روز حضرت عیسیٰؑ ایک جنگل
میں سے گزررہے تھے ، کہ ایک خوبصورت سفید پتھر پر انکی نظر پڑی حیرت ہو ئی کی اے
اللہ اِتنا خوبصورت جبرائیلؑ تشریف لائے اور فرمانے لگے اے عیسٰیؑ:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تو یس پتھر
پر کیا تعجب کرتا ہے۔اس کو اپنی عصا سے مار کر دیکھ اس کے بیچ میں کیا ہے ۔ حضرت عیسٰی ؑ نے اپنے
عصا سے پتھر مارا۔ پتھر دو ٹوٹے ہوگیا۔ بیچ میں ایک بزرگ بیٹھے تسبیح سے اللہ اللہ کا وِرد کر رہے ہے ۔حضرت
عیسٰی ؑ کی تعجب کی انتہا نہ رہی ۔ اس بزرگ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی کتنی عمر ہو
گئی ہے اس پتھر میں وہ بزرگ فرمانے لگے کہ 500 سال ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ میری سا ری
ضروریات پوری فرما رہا ہے۔
حضرت
عیسٰی ؑ فرمانے لگے کہ اے اللہ ! آپ کی درگاہ میں اس بزرگ کی عبادت سے زیادہ منظور
و مقبو ل کسی دوسرے بندے کی ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اےعیسٰیؑ تیرے بعد
ایک نبیؐ پیداکرنے والا ہوں جس کا نا م حضرت محمدﷺ ہے ۔ اس کی اُمت پر ایک ماہ کے
روزے فرض کروں گا۔ اس مہینہ میں ایک شب ہوگی لیلتہ القدر کی۔ اس ایک رات کی عبادت
مجھے اس سے زیادہ منظور و مقبول ہو گی۔
تو دوستوں
لیلتہ القدر کی رات بڑی برکتوں والی رات ہے۔ اللہ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی
توفیق اورہمارے پچھلے گناہوں کی مغفرت عطا فرمائیں اورہم پر لیلتہ القدر کی اس
بابرکت رات سےفائدہ اٹھانے کافضل وکرم کر دیں۔
اعتکاف
اعتکاف کا بڑا مقصد یہئ ہے اور یہ مقصد اس طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ
اعتکاف رمضان میں ہو، اس لئےاعتکاف کو اس کے آخری عشرہ میں مشروع کیا گیاہے۔ نبی
کریم ﷺنے بھی روزے کے بغیر اعتکاف نہیں فرمایاہے۔اور رمضان کے آخری عشرہ میں فرماتے تھے ۔شبِ قدر
اسی میں تلاش کرتے تھے۔آپؐ حضرت جبرائیلؑ کے ساتھ قرآن کا ایک دور فرماتے تھے۔
اعتکاف
میں قلت قلامی سے پرہیز کا حکم ہے ۔تمام ایسی باتوں سے زبان بند رکھنے کاحکم دیا
ہے جو آخرت کے اعتبار سے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔کیونکہ بے معنی باتیں تو ہم روز
کرتے ہیں ۔اعتکاف کامقصد ہی یہئ کہ ہم اگر کسی سے بات کرے تو اللہ سے کریں اور اگر کسی کی بات کرے تو
اللہ ہی کی با ت کریں۔
زیادہ
سونے سے بھی منع کیا گیا ہے، شعریت
نے رات کو فضول جاگنے سے نمار کا حکم دیا ہے جو زیادہ بہتر اور مفید ہے۔
آسمانی
کتابوں کا نزول
مُسنَدِاحمد (تفسیر ابنِ
کثیر جلد اول) کی حدیث میں ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ ابراہیمی صحؔیفہ رمضان کی
پہلی رات اُترا اور توراتؔ چھٹی تاریخ، انجیلؔ تیرھویں تاریخ اور قرانؔ چوبیسویں
تاریخ نازل ہؤا۔ ایک روایت کے مطابق زبورؔبارہویں رمضان المبارک کو نازل ہوئی۔
قرآن مجید بیت العزت سے آسمانِ دنیا تک تو ایک ساتھ ایک مرتبہ نازل ہؤا اور پھر حسبِ ضرورت تیس سال میں وقتاً فوقتاً
آنحضرت ﷺپر نازل ہوتا رہا۔
رمضان کی آخری
رات میں بخشش
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ سے روایت نقل
فرماتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں میری اُمت کو بخشش دیا جاتا
ہے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا وہ رات لیلتہ القدر ہے؟ فرمایا نہیں
۔لیکن کام کرنے والا جب اپنا کام پورا کر لے اس کو اس کاآجر پورا دیا جاتا ہے۔(رَواہُ اَجْمَدَ)
اللہ اپنے
فضل وکرم سے مجھے اور آپ کو ان لوگوں میں سےکر دیں۔
حضور پاک
ﷺ نے فرمایا :
بدنصیب ہے
وہ شخص جس نے ماہِ رمضان پایا اور اپنے رب کو راضی نا کرسکا۔
اللہ
تعالیٰ ہمیں اس بد نصیبی سےبچائیں ۔ غِفُوُرْو رَحِیْم ہے اللہ کی ذات ۔اللہ ہمارے
چھوٹی سی نیکی کا آجر بھی اتنا دیتے ہیں کہ ہماری سوچ ہے۔تو اس لیےاگر ہم نے تھوڑی
سی بھی کوشش کی اللہ کو راضی کرنے کی تو اللہ تعالیٰ اسکا آجر اُس سے کئی زیادہ
دے گا۔
تو
دوستوکوشش ضرور کرنا۔کیا معلوم ہماری تھوڑی کوشش بڑے آجر کاسبب بنے ۔ کیا معلوم اس
بار ہمیں لیلتہ القدر کی رات مل جائےاور ہماری بخشش ہو جائے۔کوشش کریں تو اس وجہ
سے کریں کیا پتہ یہ رمضان ہماری آخری ہو
اگلی رمضان ہو پر ہم نا ہوں۔دعاؤں میں یا د رکھیئے۔
No comments:
Post a Comment